زمیں مدار سے اپنے اگر نکل جائے

زمیں مدار سے اپنے اگر نکل جائے
نجانے کونسا منظر کدھر نکل جائے
اب آفتاب سوا نیزے پر اترنا ہے
گرفت شب سے ذرا یہ سحر نکل جائے
ثمر گرا کے بھی آندھی کی خو نہیں بدلی
یہی نہ ہو کہ جڑوں سے شجر نکل جائے
اب اتنی زور سے ہر گھر پہ دستکیں دینا
اگر جواب نہ آئے تو در نکل جائے
میں چل پڑا ہوں تو منزل بھی اب ملے گی نوید
یہ راستہ مجھے لے کر جدھر نکل جائے
اقبال نوید
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *