مجھے اوروں کے نقش پا پہ چلنا کیوں نہیں آیا
مرےجذبوںکی حدت اسکےدل تک ہی نہیںپہنچی
مری کرنوں کو بادل سے نکلنا کیوں نہیں آیا
ذرا سا لڑکھڑا کر گر پڑا میں ایک ٹھوکر سے
قدم اکھڑے تو پھر مجھ کو سنبھلنا کیوں نہیں آیا
یہ دل لگتا ہے بازی ہار جانے میں ملوث تھا
اسے کھو کر کف افسوس ملنا کیوں نہیں آیا
نہیں معلوم کیسے عمر گزری مختلف سب سے
مجھے اس آگ میں رہ کر بھی جلنا کیوں نہیں آیا
اقبال نوید