جو بھی ممکن تھا وہ زیرِ التوا رکھنا پڑا

جو بھی ممکن تھا وہ زیرِ التوا رکھنا پڑا
آنے جانے کے لیے اک سلسلہ رکھنا پڑا
زندگی بھر کی مسافت رائیگاں ہونے کو تھی
منزلوں سے باندھ کر ہر راستہ رکھنا پڑا
لوگ کب تیار تھے بیدار ہونے کے لیے
ہر کسی کی آنکھ میں اک حادثہ رکھنا پڑا
ایک بے ترتیب سی دنیا تھی جسم و جاں کی
پھر بھی اپنی گفتگو میں ضابطہ رکھنا پڑا
گھر کی اندر کی فضا تاریک تھی ایسی نوید
روشنی کی سمت دروازہ کھلا رکھنا پڑا
اقبال نوید
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *