آنکھ کا پرندہ بھی لوٹ کر نہیں آتا
موت بھی کنارہ ہے وقت کے سمندر کا
اور یہ کنارہ کیوں عمر بھر نہیں آتا
خواہشیں کٹہرے میں چیختی ہی رہتی ہیں
فیصلہ سنانے کو دل مگر نہیں آتا
دور بھی نہیں ہوتا میری دسترس سے وہ
بازوئوں میں بھی لیکن ٹوٹ کر نہیں آتا
اپنے آپ سے مجھ کو فاصلے پہ رہنے دے
روشنی کی شدت میں کچھ نظر نہیں آتا
میں کبھی نوید اس کو مانتا نہیں سورج
بادلوں کے زینے سے جو اتر نہیں آتا
اقبال نوید