تری زلف و رخ کا فریفتہ کہیں صبح ہے کہیں شام ہے
ترے اک نہ ہونے سے ساقیا نہ وہ مے نہ شیشہ و جام ہے
نہ وہ صبح اب مری صبح ہے نہ وہ شام اب مری شام ہے
نہ تو چکھنا جس کا عذاب ہے نہ تو پینا جس کا حرام ہے
سر بزم ساقی نے دی وہ مے کہ سرور جس کا مدام ہے
میں دعائیں دوں تو وہ گالیاں کریں بات بات پر بھبتیاں
یہ عجیب طور و طریق ہیں یہ عجیب طرز کلام ہے
وہ ستم سے باز نہ آئیں گے یوں ہی ظلم کرتے ہی جائیں گے
انہیں کیا مرے کہ جئے کوئی انہیں اپنے کام سے کام ہے
مرا دل دہلنے لگا ابھی دو گھڑی تو دور ہے ہم نشیں
خبر وصال نہیں سنی یہ مری قضا کا پیام ہے
بچے کس طرح سے مریض غم نہ تم آ سکو نہ بلا سکو
یہی حالتیں ہیں تو دیکھنا کوئی دم میں قصہ تمام ہے
پسے دل ہزاروں تڑپ گئے جو سسک رہے تھے وہ مر گئے
اٹھے فتنے حشر بپا ہوا یہ عجیب طرز خرام ہے
عجب عاشقوں کی نماز ہے نیا بیدم ان کا نیاز ہے
کہ قیام ہے نہ قعود ہے نہ تو سجدہ ہے نہ سلام ہے
بیدم شاہ وارثی