وہ جو بچھڑا کوئی دوسرا مل گیا
ہے مقدر بھی پتھر کی جیسے لکیر
ہم نے چاہا تھا کیا اور کیا مل گیا
دل میں مرنے کی خواہش نہیں اب ذرا
ہم کو تو جیتے جی ہی خدا مل گیا
ہے یہ قدرت کی شانِ عطا دیکھیے
جو بھی مانگا تھا اس سے سوا مل گیا
سیدھا لے جائیگا ہم کر منزل تلک
ایسا آسان سا راستہ مل گیا
ڈھونڈتے تھے جسے شہر در شہر ہم
وہ گلی میں ہماری کھڑا مل گیا
کس سے شکوہ کریں کیا شکایت کریں
تھا جو قسمت میں لکھا ہوا مل گیا
صرف اتنی کہانی ہے میری تو بس
سبز مانگا تھا لیکن ہرا مل گیا
ساری دنیا نے چھوڑا تو کیا ماہ رخ
شاعری کا مجھے آسرا مل گیا
ماہ رخ زیدی