بات کچھ تو بڑھائیے صاحب
ہو گیا جو لکھا تھا قسمت میں
کاہے آنسو بہائیے صاحب
پاس آ جائیے خدا کے لیے
دل نہیں اب جلائیے صاحب
بھوک تو مر گئی ہماری اب
کس کی خاطر کمائیے صاحب
تھوڑی اشکوں کی کیجیے برسات
آگ دل کی بجھائیے صاحب
کیوں ہیں خاموش اس قدر آخر
کچھ تو ہم کو بتائیے صاحب
خوف آتا ہے اس اندھیرے سے
ہاتھ اپنا بڑھائیے صاحب
آپ کے ساتھ کون تھا کل شب
ہم سے کچھ مت چھپائیے صاحب
ماہ رخ بے وفا ہیں لوگ یہاں
کیا بھلا دل لگائیے صاحب
ماہ رخ زیدی