دنیا سمجھ رہی ہے محبت اسے نہیں
لگتا ہے آ چکی ہے کمی اس کی چاہ میں
کافی دنوں سے مجھ سے شکایت اسے نہیں
دل کی زمین اس کی ہے بنجر اسی لیے
جذبوں کی بارشوں کی جو عادت اسے نہیں
ہر چیز اختیار میں رکھتا ہے وہ مگر
دل سے رہائی پانے پہ قدرت اسے نہیں
اس پہ زمانہ رنگ جماتا بھی کس طرح
حیرت کدے میں رہ کے بھی حیرت اسے نہیں
صحرا کے ہر ورق پہ ہے تحریر اس کا نام
کل تک جو کہہ رہا تھا کہ وحشت اسے نہیں
فاخرہ بتول