پانیوں کا پھول پانی میں رواں ہونے کو ہے
ماہیء بے آب ہیں آنکھوں کی بے کل پتلیاں
ان نگاہوں سے کوئی منظر نہاں ہونے کو ہے
گم ہوا جاتا ہے کوئی منزلوں کی گرد میں
زندگی بھر کی مسافت رائیگاں ہونے کو ہے
میں فصیل جسم کے باہر کھڑا ہوں دم بخود
معرکہ ساخواہشوں کے درمیان ہونے کو ہے
جاگتا رہتا ہوں اس کی وسعتوں کے خواب میں
چشم حیراں سے بیاں اک داستاں ہونے کو ہے
شام ہوتے ہی عطا کیوں ڈوبنے لگتا ہے دل
کچھ نہ کچھ ہونے کو ہے اور ناگہاں ہونے کو ہے
عطاء الحق قاسمی