یہ دُنیا یہ اک نامکمل تصویر
یہ دُنیا نہیں میرے خوابوں کی تعبیر
میں جب دیکھتا ہوں یہ بزمِ فانی
غمِ جاودانی کی ہے اِک کہانی
تو چیخ اٹھتی ہے میری باغی جوانی
یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دُنیا
گناہوں میں لتھڑے رواجوں کی دُنیا
محبت کے دشمن سماجوں کی دُنیا
یہاں یہ کلی دل کی کھلتی نہیں ہے
کوئی چِق دریچوں کی کھلتی نہیں ہے
مَرے عشق کو بھیک ملتی نہیں ہے
اگر میں خُدا اس زمانے کا ہوتا
تو عنوان اور اس فسانے کا ہوتا
عجب لطف دنیا میں آنے کا ہوتا
مجید امجد