خرید لوں یہ نکلی دوا، جو تو چاہے
تجھے تو
ہے کیوں میں نے اس طرح چاہا
جو تو نے یوں نہیں چاہا تو کیا، جو تو چاہے
جب ایک سانس گھسے، ساتھ ایک نوٹ پسے
نظامِ زر کی حسیں آسیا، جو تو چاہے
ذرا شکوہِ دو عالم کے گُنبدوں میں لرز
پھر اس کے بعد تیرا فیصلہ، جو تو چاہے
سلام اُن پر، تہِ تیغ بھی جنہوں نے کہا
جو تیرا حکم، جو تیری رضا، جو تو چاہے
جو تیرے باغ میں مزدوریاں کریں امجد
کِھلیں وہ پھول بھی اک مرتبہ، جو تو چاہے
مجید امجد