کانٹوں سے اُلجھ کر جینا ہے پھولوں سے لپٹ کر مرنا ہے
شاید وہ زمانہ لوٹ آئے، شاید وہ پلٹ کر دیکھ بھی لیں
ان اُجڑی اُجڑی نظروں میں پھر کوئی فسانہ بھرنا ہے
یہ سوزِ دروں یہ اشکِ رواں یہ کاوشِ ہستی کیا کہیے
مرتے ہیں کہ کچھ جی لیں ہم، جیتے ہیں کہ آخر مرنا ہے
اِک شہر وفا کے بند دریچے آنکھیں میچے سوچتے ہیں
کب قافلہ ہائے خندئہِ گل کو ان راہوں سے گزرنا ہے
رستوں پہ اندھیرے پھیل گئے، اک منزلِ غم تک شام ہوئی
اے ہمسفرو! کیا فیصلہ ہے اب چلنا ہے یا ٹھہرنا ہے
ہر حال میں اک شوریدگئیِ فسونِ تمنّا باقی ہے
خوابوں کے بھنور میں بہ کر بھی خوابوں کے گھاٹ اُترنا ہے
مجید امجد