تو عنواں کچھ اور اس فسانے کا ہوتا
عجب لطف دنیا میں آنے کا ہوتا
مگر ہائے ظالم زمانے کی رسمیں
ہیں کڑواہٹیں جن کی امرت کی رس میں
نہیں مرے بس میں نہیں مرے بس میں
مری عمر بیتی چلی جارہی ہے
دو گھڑیوں کی چھاؤں ڈھلی جارہی ہے
ذرا سی یہ بتی جلی جارہی ہے
جونہی چاہتی ہے مری روح مدہوش
کہ لائے ذرا لب پہ فریاد پر جوش
اجل آکے کہتی ہے خاموش! خاموش