یوں اپنی بھول کی میں سزا کاٹنے لگا
جس کو گلے لگایا گلا کاٹنے لگا
اب کے عجیب طرح کی بارش ہوئی یہاں
سیلِ وفا بھی راہِ وفا کاٹنے لگا
کس کشمکش میں تھا کہ میں دیوارِ عشق پر
لکھّا پہ لکھ کے نام تِرا کاٹنے لگا
اپنی جفا پہ پھوٹ کے رونا پڑا اُسے
جس وقت وہ بھی فصلِ جفا کاٹنے لگا
آب و ہوا کی آنکھوں میں کیوں اشک آگئے
شاید کوئی درخت ہرا کاٹنے لگا
راغبؔ نہ پوچھ اُس کے بھروسے کی خستگی
جو شخص لکھ کے حرفِ وفا کاٹنے لگا
جولائی ۲۰۱۳ء غیر طرحی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: غزل درخت