ویسے تو وہ ’ ہوں ، ہاں ‘ کے سوا کچھ نہیں کہتے
کہنے پہ جب آجائیں تو کیا کچھ نہیں کہتے!
ہو جائے مِرے دل میں کچھ الہام خدایا
کیوں ہو گئے وہ مجھ سے خفا کچھ نہیں کہتے
کوزے میں سمندر وہ سمونے کے ہیں قائل
وہ لوگ بھی غزلوں کے سوا کچھ نہیں کہتے
جب ظلم و ستم میں وہ لگا حد سے گزرنے
سب دیکھ کے ہم کیسے بھلا کچھ نہیں کہتے
برسوں سے سناتے ہیں وہی طرز بدل کر
ہر اِک کو پتا ہے وہ نیا کچھ نہیں کہتے
کرتے ہیں پریشاں وہ ہمیشہ مجھے راغبؔ
اپنی ہی کہے جاتے ہیں یا کچھ نہیں کہتے
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: خیال چہرہ