ہو چراغِ علم روشن

غزل
ہو چراغِ علم روشن ٹھیک سے
لوگ واقف ہوں نئی تکنیک سے
علم سے روشن تو ہے اُن کا دماغ
دل کے گوشے ہیں مگر تاریک سے
راے اُس پر مت کرو قائم کوئی
جانتے جس کو نہیں نزدیک سے
مرتبہ کس کا ہے کیسا کیا پتہ
باز آنا چاہیے تضحیک سے
ہاتھ پھیلانا مقدّر بن نہ جائے
پیٹ بھرنا چھوڑ دیجیے بھیک سے
جڑ گیا شیشہ بھروسے کا مگر
رہ گئے ہیں بال کچھ باریک سے
جس کا مقصد عدل و امن و آشتی
دل ہے وابستہ اُسی تحریک سے
بے سبب راغبؔ تڑپ اُٹھتا ہے دل
دل کو سمجھانا پڑے گا ٹھیک سے
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: خیال چہرہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *