نہ منھ بگاڑ کے بولو نہ منھ بنا کے کہو
جو بات کہنی ہے اے دوست مسکرا کے کہو
کہو کچھ اور سمجھ لیں کچھ اور اہلِ خرد
ذرا سی بات نہ اتنی گھما پھرا کے کہو
میں مانتا ہوں کہ تم سچ ہی بولتے ہو مگر
ہر ایک بات نظر سے نظر ملا کے کہو
یہ کیا کہ غیبتیں کرتے ہو ہر جگہ میری
تمھیں جو کہنا ہے دو ٹوک مجھ سے آ کے کہو
کہو غزل تو لگاؤ دل و دماغ ذرا
ردیف و قافیہ اچھّی طرح نبھا کے کہو
مجھے خبر ہے وہ راغبؔ کہیں گے کیا کیا کچھ
نہ کچھ گھٹا کے سناؤ نہ کچھ بڑھا کے کہو
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: لفظوں میں احساس