نہ جانے کیا ہے اُس

غزل
نہ جانے کیا ہے اُس ظالم کے جی میں
کمی آتی نہیں کچھ کج رَوی میں
سہاگن ہو کے بھی ان برہنوں کی
جوانی کٹ رہی ہے بیوگی میں
مِرے محبوب تجھ سے دُور رہ کر
عجب سی بے کلی ہے زندگی میں
بتاؤ کون ہے دنیا میں ایسا
کمی کوئی نہیں جس آدمی میں
ملے اخلاص کا دریا سمندر
بڑی شدّت ہے میری تشنگی میں
تکبّر نے کیا برباد اُسے بھی
گزاری عمر جس نے بندگی میں
ابھی اِک دوسرے سے لڑ رہے ہیں
کبھی کھاتے تھے دونوں ایک ہی میں
دیا ہے خون میں نے اس دئے کو
’’ مرا حصّہ بھی ہے اس روشنی میں ‘‘
نہ ہو جس کا اثر کچھ ذہن و دل پر
مزہ آتا نہیں اُس شاعری میں
دعا کیجیے کہ راغبؔ زندگی بھر
اضافہ ہو ہماری دوستی میں
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: خیال چہرہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *