نمی سے آنکھوں کی سرسبز اپنا حال تو کر
شکستہ حال اُمیدوں کی دیکھ بھال تو کر
تڑپ رہے ہوں کہیں تجھ سے بھی زیادہ وہ
نکال راہ کوئی، رابطہ بحال تو کر
کسے ہے خواہشِ آسودگی محبت میں
نواز کر مجھے جینا مِرا محال تو کر
چلا ہے جس سے پرکھنے صداقتِ احباب
تُو اپنے آپ سے پہلے وہی سوال تو کر
تڑپ تڑپ کے نہ مر جاؤں تیری فرقت میں
میں افتخارؔ ہوں تیرا، سو کچھ خیال تو کر
جون ۲۰۱۱ء طرحی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: غزل درخت