نفرت کے تاجروں کو محبت کی آرزو
دوزخ کے باسیوں کو ہے جنت کی آرزو
حکمت کی آرزو ہے نہ حیرت کی آرزو
اہلِ جنوں کو شدّتِ وحشت کی آرزو
رگ رگ میں جس کی جذب ہو مہر و وفا کا نوٗر
دیوارِ عشق کو ہے اُسی چھت کی آرزو
آئیں ہر اِک شجر پہ محبت کے برگ و بار
پوری نہ ہو کسی کی شرارت کی آرزو
دل کی تڑپ ہلاک ہی کر دے نہ اب ہمیں
شدّت کا ذوق و شوق ہے شدّت کی آرزو
پروازِ فکر جانبِ ہفت آسماں رہے
پستی کا رُخ دکھائے نہ جدّت کی آرزو
نام و نشاں بھی مٹ گیا میرا تو غم نہیں
مٹنے نہ پائے حق کی حمایت کی آرزو
کیسے بتاؤں کیسی قیامت اُٹھا گئی
صرف ایک آرزو پہ قناعت کی آرزو
پوری کہاں ہوئی کبھی دربارِ عشق میں
’’بے جبر التفات و عنایت کی آرزو‘‘
ذکرِ جہاد جن کے لبوں پر نہیں کبھی
راغبؔ اُنھیں ہے مالِ غنیمت کی آرزو
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: یعنی تُو