میں کہتا تھا نہ اُن کے سامنے جانے سے پہلے ہی
مجھے مجروح کر دیں گے وہ شرمانے سے پہلے ہی
تکلّف اور نفاست سے ہی سب پہچان جاتے ہیں
کراماتِ زبانِ خاص دکھلانے سے پہلے ہی
سمجھ کر بھی نہ وہ سمجھیں لگی دل کی تو کیوں سمجھوں
سمجھ جاتے ہیں وہ ہر بات سمجھانے سے پہلے ہی
کسی سائے کو ترسا ہوں بہت صحرا نوَردی میں
خوشی کے مارے مر جاؤں نہ گھر جانے سے پہلے ہی
اب اُس کا کیا جو ٹھوکر کھا کے بھی ویسے کا ویسا ہے
سنبھل جاتے ہیں کتنے ٹھوکریں کھانے سے پہلے ہی
کفِ افسوس اب ملنے سے کچھ حاصل نہیں راغبؔ
کوئی دم سوچتے گھر چھوڑ کر جانے سے پہلے ہی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: لفظوں میں احساس