میرے خامے کو وہ سیاہی دے
ذہن و دل کو جو خوش نگاہی دے
اب کوئی فیصلہ سنا ہی دے
مت جزا دے مجھے سزا ہی دے
ختم وابستگی نہ کر مجھ سے
میں ہوں دشمن تو بد دعا ہی دے
مت بتا مجھ کو راہ منزل کی
پانو رکھنے کو راستا ہی دے
مجرموں کو بھی جو نصیب نہ تھی
وہ سزا آج بے گناہی دے
کیا بتاؤں، یہ دل ہی جانے ہے
دُکھ جو اپنوں کی خیر خواہی دے
دیکھ کیا کیا کمال کرتا ہوں
تُو مجھے صرف حوصلہ ہی دے
سب طرف دار جب اُسی کے ہیں
کون حق میں مِرے گواہی دے
کس کے آنگن میں چاند اُترا ہے
’’اب تو اے دل اُسے بھلا ہی دے‘‘
یہ محبت کی آگ ہے راغبؔ
دے سکے تو اِسے ہَوا ہی دے
جون ۲۰۰۸ء طرحی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: غزل درخت