مِری گردن سے یوں تیغِ ستم ایجاد ملتی ہے
زمانے بھر سے میرے حوصلے کی داد ملتی ہے
نہیں محتاج شعر و شاعری تعلیم کی لیکن
لہک اُٹھتے ہیں وہ پودے جنھیں کچھ کھاد ملتی ہے
سمندر پار ملتے ہیں یقینًا ڈالر و درہم
پر اکثر زندگی افسردہ و ناشاد ملتی ہے
امیرِ شہر کی چشمِ کرم کو کون دکھلائے
کسے لوٹا حوادث نے کسے امداد ملتی ہے
سبھی کو رزق ملتا ہے خدا کے کارخانے سے
ہر اِک فرقت زدہ دل کو متاعِ یاد ملتی ہے
محبّت چاہتی ہے دیکھنا نمناک آنکھوں سے
کہانی میں کہاں تک ہجر کی روداد ملتی ہے
جہاں بھی دیکھتا ہوں کھود کر دل کی زمیں راغبؔ
کہیں آہیں نکلتی ہیں کہیں فریاد ملتی ہے
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: خیال چہرہ