مرکزِ فکر ہے

غزل
مرکزِ فکر ہے منظورِ نظر ہے کوئی
یوں بظاہر تو نہیں کوئی مگر ہے کوئی
اُس کی باتیں ہیں کہ شاعر کی مرصّع غزلیں
لحن اُس کا ہے کہ جادو کا اثر ہے کوئی
آرزؤں کی یہاں بھیڑ لگی رہتی ہے
دل ہے میرا کہ تمناؤں کا گھر ہے کوئی
جس کی خاطر مِری آنکھیں ہیں بیاکل ہر دم
قرّۃالعین ہے فردوسِ نظر ہے کوئی
کشتیِ زیست ڈبونے کے لیے آمادہ
جسم کے بحر میں سانسوں کا بھنور ہے کوئی
باعثِ فخر اگر شعلہ بیانی ہے تو کیوں
تیری باتوں میں کشش ہے نہ اثر ہے کوئی
کھو گیا ہوں میں تخیّل کی کسی وادی میں
فکر در فکر ستاروں کا سفر ہے کوئی
مدّتوں قبل کیا تھا کوئی وعدہ تم نے
منتظر اب بھی سرِ راہ گزر ہے کوئی
ایسے اِتراے وہ پھرتا ہے ہمیشہ راغبؔ
جیسے اُس میں لگا سُرخاب کا پر ہے کوئی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: لفظوں میں احساس
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *