مت مجھے مہر و مہ

غزل
مت مجھے مہر و مہ دیجیے
چلنے پھرنے کو رہ دیجیے
کون ہے پاسدارِ وفا
کس کو دل میں جگہ دیجیے
کس طرف آپ کا ہے جھکاؤ
صاف لفظوں میں کہہ دیجیے
کیجیے اور فکرِ اماں
اور ظالم کو شہ دیجیے
اُتنا ہوتا ہے وہ بے حجاب
جھوٹ کو جتنی تہہ دیجیے
آئینے کے ہیں وہ رُو برُو
اُن کو میری نگہ دیجیے
ہر طرف رنگ و روغن کی دھوم
کس کو حرفِ سیہ دیجیے
اپریل ۲۰۰۹ء غیر طرحی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: غزل درخت
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *