لب ہیں خاموش، چشمِ تر خاموش
سب ہیں تیرے سوال پر خاموش
ظلم سہتے رہے جہاں بھر کے
ہم اِدھر اور تم اُدھر خاموش
لوگ مجرم تمھیں سمجھ لیں گے
رہ گئے آج تم اگر خاموش
کوئی طوفان اُٹھ کے رہتا ہے
جب بھی آتے ہیں وہ نظر خاموش
اُن پہ کہتا رہا غزل اور وہ
داد دیتے رہے مگر خاموش
دل ہمارا دہلنے لگتا ہے
دیکھ کر تجھ کو اِس قدر خاموش
سب سمجھتے رہے ہمیں نادان
ہم لگاتے رہے شجر خاموش
عمر بھر خواہشوں کے لشکر سے
جنگ لڑتا رہا مگر خاموش
اپنے ایماں کا جائزہ لیجئے
رہ گئے ظلم دیکھ کر خاموش
کون آتا ہے کون جاتا ہے
’’تکتے رہتے ہیں بام و در خاموش‘‘
اہلِ دانش کی بزم میں راغبؔ
اچھّے لگتے ہیں بے ہنر خاموش
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: لفظوں میں احساس