گماں کے ہٹا کر دِیے رکھ دِیے
یقیں کے جلا کر دِیے رکھ دِیے
دِیے رکھ دِیے تھے کہ جگمگ ہو جگ
پہ تم نے چھپا کر دِیے رکھ دِیے
حفاظت کا تیری یقیں جب ہوا
ہواؤں میں لا کر دِیے رکھ دِیے
مسرّت کے تھے یا غم و درد کے
دِیے جو جلا کر دِیے رکھ دِیے
تِرے راستے میں شبِ انتظار
نظر کے بچھا کر دِیے رکھ دِیے
رہِ شوق میں ہم جہاں بھی گئے
وفا کے سجا کر دِیے رکھ دِیے
غزل اُن کی محفل میں ہم نے پڑھی
کہ اندھوں میں جا کر دِیے رکھ دِیے
اندھیروں سے رغبت تھی راغبؔ اُسے
سو اُس نے بجھا کر دِیے رکھ دِیے
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: لفظوں میں احساس