کوئی اُس سے نہ وہ

غزل
کوئی اُس سے نہ وہ کسی سے ملے
روشنی کیسے تیرگی سے ملے
دور ہی سے سلام ہے اُس کو
پاس آکر جو بے دلی سے ملے
کھول کر چشم تیرگی دیکھی
موند کر آنکھ روشنی سے ملے
موت چارہ گری کو آ پہنچی
اِس قدر زخم زندگی سے ملے
حدِّ امکاں سے ہے پرے اے دل
کیا کوئی تیری بے کلی سے ملے
علم والوں کو علم ہے راغبؔ
دولتِ جہل آگہی سے ملے
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: یعنی تُو
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *