کہہ تو دیا ہے

غزل
کہہ تو دیا ہے ’’اچھّا دیکھا جائے گا‘‘
کیسے تیرا بچھڑنا دیکھا جائے گا
کِن آنکھوں سے ہجر کی صورت دیکھیں گے
کس منھ سے آئینہ دیکھا جائے گا
مجھ کو کہاں معلوم تھا یوں ہی توڑ کے دل
پتھّر ہے یا شیشہ دیکھا جائے گا
کب کم ہوگی ظلم کی بارش پودوں پر
پیڑوں کا کب ہنسنا دیکھا جائے گا
آنکھوں میں بھر جائے گی ہریالی سی
صحرا میں جب دریا دیکھا جائے گا
کب آئے گی دنیا میں اے خوش حالی
کب تک تیرا رستہ دیکھا جائے گا
خود ہی مت اعمال کا اپنے نامہ لکھ
نیّت کا بھی چہرہ دیکھا جائے گا
ظلم و جبر کی کب ہوگی یہ کہانی ختم
کب تک یوں ہی تماشا دیکھا جائے گا
سونپ دیا ہے اپنا دل اک ظالم کو
آگے اب جو ہوگا دیکھا جائے گا
آنکھوں میں جب راغبؔ اتنی سرخی ہو
کیسے خواب سنہرا دیکھا جائے گا
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: یعنی تُو
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *