کسی کو خوں رُلانے سے کسی کو کچھ نہیں ملتا
کہ رونے گڑگڑانے سے کسی کو کچھ نہیں ملتا
کسی کو کچھ نہیں ملتا عداوت اور نفرت سے
کسی کا دل دکھانے سے کسی کو کچھ نہیں ملتا
اگر غیرت ہے زندہ تو وسائل کیجیے پیدا
ہمیشہ دُم ہلانے سے کسی کو کچھ نہیں ملتا
تمھاری مانگ جو بھی ہو سلیقے سے اُسے رکھّو
بھئی اُودھم مچانے سے کسی کو کچھ نہیں ملتا
لگا رکھّی ہے تم نے آس لیکن بھول بیٹھے ہو
کہ قارونی خزانے سے کسی کو کچھ نہیں ملتا
توجّہ سے کرو حاصل وہاں تعلیم و تربیّت
فقط کالج میں جانے سے کسی کو کچھ نہیں ملتا
درختوں پر اُنھیں راغبؔ ہمیشہ چہچہانے دو
پرندوں کو اُڑانے سے کسی کو کچھ نہیں ملتا
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: خیال چہرہ