کسی پہ تم کو بھروسا اب اِس قدر بھی نہ ہو
وہ تم پہ تیٖر چلائے تمھیں خبر بھی نہ ہو
میں جانتا ہوں کہ سب ان کی ہی عنایت ہے
میں چاہتا ہوں کہ الزام ان کے سر بھی نہ ہو
خدا کے حکم پہ جھک جائے دل فرشتوں سا
نہ ہو غرور تو شاید اگر مگر بھی نہ ہو
درونِ دل جو بکھیرے غبارِ بے مہری
گماں کا ایسے کبھی قلب سے گزر بھی نہ ہو
کسی کی زُلفِ پریشاں سے دل پریشاں ہے
کسی کی زُلف نہ ہو سر تو دردِ سر بھی نہ ہو
یہ بات خود کو میں سمجھا رہا ہوں برسوں سے
ہو خاکساری مگر باعثِ ضرر بھی نہ ہو
نہیں غلام جو تیرے سوا کسی کے ہم
ہمارے دل میں کسی دوسرے کا ڈر بھی نہ ہو
چراغ کتنے بجھے کتنے آشیاں اُجڑے
’’ہواے تُند کو شاید کبھی خبر بھی نہ ہو‘‘
غمِ فراق میں جب تڑپے دل اِدھر راغبؔ
خدا کرے کسی کروٹ سکوں اُدھر بھی نہ ہو
اپریل ۲۰۱۱ء طرحی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: غزل درخت