کس جگہ کس وقت اور کس بات پر کتنا چپ رہنا ہے اُن کو علم ہے
میری شرحِ خواہش و جذبات پر کتنا چپ رہنا ہے اُن کو علم ہے
حالِ دنیا، حالِ دل کہتے رہو اور تغاقل کا الم سہتے رہو
ڈال کر غائر نظر حالات پر کتنا چپ رہنا ہے اُن کو علم ہے
جیت پر مِلتے ہیں سب پرسانِ حال اور رکھتے ہیں بہت میرا خیال
مات کھا جاؤں تو میری مات پر کتنا چپ رہنا ہے اُن کو علم ہے
ساری دنیا کہہ رہی ہے واہ وا اور وہ بیٹھے ہیں گم صم بے صدا
میری غزلیں اور مرے نغمات پر کتنا چپ رہنا ہے اُن کو علم ہے
یوں تو عادت ہے اُنھیں تقریر کی، اچھّے دن کے خواب کی تشہیر کی
گر سوال اٹھّا شبِ ظلمات پر کتنا چپ رہنا ہے اُن کو علم ہے
کیا کروں راغبؔ کوئی اُن سے گلہ، غیر پر کرتے ہیں کھل کر تبصرہ
بات جب چھڑتی ہے میری ذات پر کتنا چپ رہنا ہے اُن کو علم ہے
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: یعنی تُو