کتنے دن اور کئی برس یوں ہی
کیا تڑپتے رہیں گے بس یوں ہی
ان کی رُسوائیوں پہ حیرت کیا
منھ کی کھاتے ہیں بوالہَوس یوں ہی
کم اُپجتی ہیں کام کی چیزیں
اُگتے رہتے ہیں خار و خس یوں ہی
ہم ہی کیا کیا گمان کر بیٹھے
اُس نے پوچھا تھا حال بس یوں ہی
چاہتے ہو کہ خونِ دل نہ جلے
فن پہ حاصل ہو دسترس یوں ہی
وقت آتے ہی توڑ دیتے ہیں
سارے رشتوں کو ہم نفَس یوں ہی
یوں ہی یاد آ گیا کوئی راغبؔ
اور آنکھیں گئیں برس یوں ہی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: لفظوں میں احساس