کبھی زمین کبھی آسماں کے بارے میں
ہمیں ہے سوچنا سارے جہاں کے بارے میں
نہ جانے کیوں مِری آنکھیں برسنے لگتی ہیں
میں سوچتا ہوں جب اس گلستاں کے بارے میں
کسی کو راز بتانے کی کیا ضرورت تھی
سو کچھ نہ بولیے اب رازداں کے بارے میں
یہ تیری سادہ دِلی تجھ کو مار ڈالے گی
پتا نہیں تجھے اہلِ جہاں کے بارے میں
جو حق پرست ہیں مذہب ہے جن کا سچائی
وہ سوچتے نہیں سود و زیاں کے بارے میں
ہر ایک سمت سے برق و شرر نے گھیر لیا
ہر اِک کو علم تھا اُس آشیاں کے بارے میں
اِس اضطراب میں بھی اے قطر سکون سے ہوں
میں کیا لکھوں ترے امن و اماں کے بارے میں
یہاں کی فکر میں سب کچھ بھلائے بیٹھے ہیں
کبھی تو سوچئے صاحب وہاں کے بارے میں
متاعِ دردِ جگر جس نے کی عطا راغبؔ
زباں خموش ہے اُس مہرباں کے بارے میں
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: خیال چہرہ