فراق و ہجر کے لمحے شمار کر کر کے
میں تھک گیا ہوں تِرا انتظار کر کر کے
خیال و فکر کی پریاں اُڑاتا رہتا ہوں
حسین شعر کے رتھ پر سوار کر کر کے
کوئی عروسِ غزل روز و شب مِرے دل کو
لبھاتی رہتی ہے سولہ سنگھار کر کر کے
نہ جانے کیا اُسے مطلوب ناتواں سے ہے
یہ دیکھتا ہوں ہر اِک شَے نثار کر کر کے
یہ کاروبارِ وفا ہی مِرا مقدّر ہے
سمجھ چکا ہوں کئی کاروبار کر کر کے
عجب مزاج کا حامل رہا ہوں میں راغبؔ
فریب کھاتا رہا اعتبار کر کر کے
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: لفظوں میں احساس