قتل و غارت جو مچائے ہوئے ہیں
پرچمِ امن اُٹھائے ہوئے ہیں
ایک مدّت سے غموں کے بادل
شہرِ احساس پہ چھائے ہوئے ہیں
اتنا بچّوں کو بھی سکھلا دیتے
جتنا توتے کو رٹائے ہوئے ہیں
صرف الزام لگا کر ظالم
آسماں سر پر اُٹھائے ہوئے ہیں
ہم تماشائی بنے ہیں راغبؔ
اور وہ کہرام مچائے ہوئے ہیں
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: خیال چہرہ