ضرورتوں کی بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں پاؤں میں
تمھیں بتاؤ کس طرح میں لوٹ آؤں گاؤں میں
اکیلے پن کی دھوپ میں تڑپ رہا ہوں اے خدا
کوئی پہر تو ہو بسر محبتوں کی چھاؤں میں
بچھڑ کے تم سے کس طرح گزاروں اپنی زندگی
الجھ گیا ہوں میں تمھاری یاد کی لتاؤں میں
تڑپ رہا ہوں پیاس سے ، بندھی ہوئی ہے آس بھی
نمی نہیں ہے کیا تمھارے پیار کی گھٹاؤں میں
ہوائے شہر سے ہوئی رداے امن تار تار
ترقیوں کی بجلیاں گریں یوں گاؤں گاؤں میں
کوئی دھرے گا کان کیا تمھارے امن امن پر
صداے مکر و فن جو ہے تمھاری کاؤں کاؤں میں
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: خیال چہرہ