طیش میں آئیں لہریں پانی کی
جب ہواؤں نے چھیڑخانی کی
آج وہ چھاؤں کو ترستا ہے
عمر بھر جس نے باغبانی کی
بے گھری سے اُسے ڈراتے ہو
جس نے فٹ پاتھ پر جوانی کی
کچھ تو بولے کوئی کہ دنیا نے
جیتے جی کس کی قدردانی کی
میرے احساس میری سوچوں کی
میرے شعروں نے ترجمانی کی
قید ہوں جسم کی عمارت میں
آزمایش ہے سخت جانی کی
کیا کوئی حد نہیں ستم دیدو!
بے حسی اور بے زبانی کی
ہو گئے گل کئی گھروں کے چراغ
جب بھی صرصر نے مہربانی کی
آج اُس کا ہی بول بالا ہے
جس نے راغبؔ غلط بیانی کی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: خیال چہرہ