سینے میں چھپا کے

غزل
سینے میں چھپا کے چاہ کوئی
مت دل کو کرے تباہ کوئی
پچھتانے سے مت گریز کرنا
ہو جائے اگر گناہ کوئی
ملتا ہے سرور کچھ اُسے بھی
جب کہتا ہے دل سے واہ کوئی
میں اپنے بدن میں بے ٹھکانہ
مل جائے مجھے پناہ کوئی
کھُل سکتے نہیں ہیں کان اُس کے
سمجھائے اب اُس کو خواہ کوئی
پیروں سے مرے بندھے بگولے
اور ملتی نہیں ہے راہ کوئی
میں سب کی بھلائی چاہتا ہوں
ہے میرا بھی خیر خواہ کوئی
اِس مکر و فریب کے جہاں میں
کس کس پر رکھے نگاہ کوئی
تھکتا ہی نہیں جو کج روی سے
ہے ایسا بھی کج کلاہ کوئی
کس کو ہے امیدِ عدل راغبؔ
کیا حاضر کرے گواہ کوئی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: خیال چہرہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *