ڈالر و درہم و دینار سے مل جاتے ہیں
اب تو غم خوار بھی بازار سے مل جاتے ہیں
وہ سمجھتے ہیں بہت تیز کھلاڑی خود کو
جن کو رستے بڑے ہم وار سے مل جاتے ہیں
وجۂ افسردگیِ دیدہ و دل مت پوچھو
سو بہانے مجھے اخبار سے مل جاتے ہیں
نامہ بر اپنا بلا کا ہے سبک گام کہ اب
خط ہمیں برق کی رفتار سے مل جاتے ہیں
جذبۂ شعر و سخن سوزِ محبت کے طفیل
حوصلے گرمیِ افکار سے مل جاتے ہیں
سارے احوال سنا دیتی ہیں آنکھیں راغبؔ
بھید سب چہرہ و رُخسار سے مل جاتے ہیں
اپریل ۲۰۰۸ء طرحی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: غزل درخت