دیکھ آتا ہے وہ سمے

غزل
دیکھ آتا ہے وہ سمے کہ نہیں
فاصلہ ہو رہا ہے طے کہ نہیں
مسکراہٹ کو دیکھ کر میری
دل کسی کا اُداس ہے کہ نہیں
میری چاہت کے ڈوبتے سورج
پھر سے ہوگا تِرا اُدے کہ نہیں
اپنے توشے میں دیکھتے رہیے
کار آمد ہے کوئی شے کہ نہیں
جائزہ پے بہ پے ضروری ہے
باہمی اتّفاق ہے کہ نہیں
جتنے بھی خود پسند ہیں راغبؔ
آپ کہتے ہیں اپنی جَے کہ نہیں
جولائی ۲۰۰۷ء غیر طرحی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: غزل درخت
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *