دل سے جب آہ نکل جائے گی
جاں بھی ہمراہ نکل جائے گی
دل میں کچھ بھی تو نہ رہ جائے گا
جب تِری چاہ نکل جائے گی
ہم نے سمجھا تھا کہ کچھ برسوں میں
فصلِ جاں کاہ نکل جائے گی
فن اگر لائقِ تحسین ہوا
خود بخود واہ نکل جائے گی
پھر سبھی جوڑ کے سر بیٹھے ہیں
پھر کوئی راہ نکل جائے گی
تم سے ملنے کی بھی کوئی صورت
انشاء اللہ نکل جائے گی
توڑ کر ساری فصیلیں راغبؔ
فکرِ آگاہ نکل جائے گی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: خیال چہرہ