دِکھا کر ہمارا ہی سایا ہمیں
ہماری نظر نے ڈرایا ہمیں
نہ آنکھوں میں تم نے بسایا ہمیں
نہ اشکوں کی صورت بہایا ہمیں
نہ اچھّی طرح سے جلایا ہمیں
نہ جلنے سے تم نے بچایا ہمیں
خرد کی نہ چلنے دی اِس نے کبھی
’’جنوں نے تماشا بنایا ہمیں‘‘
اُسی نے تو بھیجا تھا ہم کو یہاں
سو جب چاہا اُس نے بلایا ہمیں
دھواں ہے نہ شعلہ نہ کوئی شرر
یہ کیسی اگَن میں جلایا ہمیں
ہمیشہ غبارِ سفر کی طرح
جہاں چاہا اُس نے اُڑایا ہمیں
دیارِ خرد میں وفا کا چلن
کسی طرح راغبؔ نہ بھایا ہمیں
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: لفظوں میں احساس