درونِ چشم ہے روشن

غزل
درونِ چشم ہے روشن کوئی جھلک اُس کی
کہ محوِ رقص نگاہوں میں ہے چمک اُس کی
یہ بات آئی سمجھ میں نہ آج تک اُس کی
غزل درخت سے آتی ہے کیوں مہک اُس کی
وہ عطر بیز رہے شاخِ یاسمن کی طرح
لبھائے دل کو ہمیشہ چمک دمک اُس کی
جو درد تیری محبّت کا دل میں اٹھتا ہے
میں چاہتا ہوں کہ ہردم رہے کسک اُس کی
یہ جستجو کہ کہیں اُس کا کچھ سُراغ ملے
یہ آرزو کہ نظر آئے اک جھلک اُس کی
مِرے خلاف جو سازش رچی ہے اپنوں نے
خدا کرے نہ لگے غیر کو بھنک اُس کی
ذرا سی بات ہو جب باعثِ حسد راغبؔ
سناؤں کس کو میں باتیں لہک لہک اُس کی
اگست ۲۰۱۳ء غیر طرحی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: غزل درخت
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *