خوب مجبوریٔ حالات سمجھتا ہوں میں
مہرباں آپ کی ہر بات سمجھتا ہوں میں
میں سمجھتا ہوں مِرے دوست حقیقت اپنی
مقصدِ ارض و سماوات سمجھتا ہوں میں
روح کو ایک جواں حوصلہ قیدی کی طرح
جسم کو ایک حوالات سمجھتا ہوں میں
تجھ سے ملنے کی تڑپ مار نہ ڈالے مجھ کو
کیسے قابو میں ہیں جذبات سمجھتا ہوں میں
کیوں نہ ہر لمحہ اُنھیں دل سے لگائے رکھّوں
زخمِ دل آپ کی سوغات سمجھتا ہوں میں
دیکھنے والے سمجھتے ہیں اِسے اشکِ رواں ہے
کیسے ہوتی ہے یہ برسات سمجھتا ہوں میں
اپنے اشعار کی تشریح نہ کیجیے راغبؔ
آپ کے سارے کنایات سمجھتا ہوں میں
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: خیال چہرہ