خوب شعلوں کو ہوا دی اُس نے
آگ پانی میں لگا دی اُس نے
ڈائری لے کے مِری چپکے سے
اپنی تصویر بنا دی اُس نے
کس کے دم سے ہے قیامت برپا
کس کو لکھّا ہے فسادی اُس نے
دل ہُوا اور پریشان مِرا
جب کبھی دل سے دعا دی اُس نے
وجۂ بے خوابی بتا کر مجھ کو
نیند میری بھی اُڑا دی اُس نے
راہ ہموار کہاں ہو پائی
پھر سے دیوار اُٹھا دی اُس نے
ہر طرف ایک ہی افسانہ ہے
کیسی پھیری ہے منادی اُس نے
اس کو لگتا ہے بہا کر آنسو
پیٖت کی ریٖت نبھا دی اُس نے
میں نے اِک بات کہی تھی راغبؔ
بے سبب بات بڑھا دی اُس نے
اپریل ۲۰۱۲ءغیر طرحی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: غزل درخت