خلوص و اُنس میں جو صورتِ شجر ٹھہرے
غموں کی دھوپ میں تپ کر ہی معتبر ٹھہرے
ہمیں کسی سے عداوت نہیں شجر ہیں ہم
ہماری شاخ پہ بس پیار کا ثمر ٹھہرے
سکونِ قلب تو حاصل ہے ہم فقیروں کو
بلا سے آپ کی نظروں میں دربدر ٹھہرے
نکل کے خانہ بدوشی کی زندگانی سے
خدا کا شکر ہے کچھ دن تو اپنے گھر ٹھہرے
بڑے ہی کام کی مٹّی مِرے وجود میں ہے
سو مجھ پہ بھی تو کبھی چشمِ کوزہ گر ٹھہرے
ستم جو ڈھائے وہ ٹھہرائے خود کو امن پرست
خلافِ ظلم جو اٹھّے وہ فتنہ گر ٹھہرے
ہنر کا سارا خزانہ ہے جن کے سینے میں
وہی زمانے میں افسوس بے ہنر ٹھہرے
طرح طرح کی میں عینک لگا کے دیکھتا ہوں
کبھی تو اپنی کمی پر مِری نظر ٹھہرے
خدا کے خوف سے لرزیدہ ٹھہرا دل راغبؔ
سو دل میں کیسے کسی دوسرے کا ڈر ٹھہرے
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: خیال چہرہ