چشمِ غیرت کا ہے اثاثہ کیا
ابر سے چاہتا ہے دریا کیا
ہر ملاقات آخری سمجھو
سانس کی ڈور کا بھروسا کیا
کیوں گریزاں ہو اِس قدر مجھ سے
سرد پڑجائے گا یہ شعلہ کیا
دل نے سمجھا ہے کیا محبت کو
اور سمجھا رہی ہے دنیا کیا
ضبط کیا چاہتا ہے دل سے مرے
بے قراری کا ہے تقاضا کیا
سبز پتّو! ڈرو ہواؤں سے
میں تو ٹوٹا ہوا ہوں میرا کیا
مجھ سے خائف ہیں وحشتیں راغبؔ
مجھ کو دکھلا رہے ہو صحرا کیا
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: یعنی تُو