چاہتوں کا سلسلہ ہے مستقل
سبز موسم کرب کا ہے مستقل
کیا بتاؤں دل میں کس کی یاد کا
ایک کانٹا چبھ رہا ہے مستقل
بڑھ رہا ہے مستقل قحطِ شجر
زہر آلودہ فضا ہے مستقل
راہِ الفت میں کہاں آسانیاں
پُر خطر یہ راستہ ہے مستقل
آگئی ہے فصلِ آزادی مگر
خوف کا پودا ہرا ہے مستقل
دشمنی کے سب دریچے بند ہیں
دوستی کا در کھلا ہے مستقل
عشق کے اِک ٹمٹماتے دیپ نے
دل کو روشن کر رکھا ہے مستقل
ایک موسم کی کسک ہے دل میں دفن
میٹھا میٹھا درد سا ہے مستقل
ذہن و دل کی وادیِ پُر امن میں
گونجتی کس کی صدا ہے مستقل
دیکھ کر رسمِ وفا اس دور کی
شرمگیں حرفِ وفا ہے مستقل
غم کسی کا ہو گیا راغبؔ نصیب
ورنہ اِس دنیا میں کیا ہے مستقل
اگست ۲۰۱۳ء غیر طرحی
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: غزل درخت