جی چاہے کہ دنیا کی ہر اِک فکر بھلا کر
کچھ شعر سناؤں میں تجھے پاس بٹھا کر
جانے کہاں کس موڑ پہ ہو جائے ملاقات
اِس آس میں پھرتا ہوں ترے شہر میں آ کر
خوشیاں تجھے مل جاتیں تو افسوس نہ ہوتا
آخر تجھے کیا مل گیا دل میرا دکھا کر
یہ کیا کہ سدا اپنے ہی مطلب کی دعائیں
اوروں کے بھی حق میں کبھی اے دوست دعا کر
پھر دیکھ کہ ملتی ہے تجھے کتنی مسرّت
ہے شرط کہ اخلاص و محبّت سے ملا کر
چہرے سے ترے چپکی ہوئی ہیں مِری آنکھیں
تو بھی تو مری سمت کبھی دیکھ لیا کر
غیبت سے نہ بھر جائے کہیں نامۂ اعمال
جو کچھ تمھیں کہنا ہے کہو سامنے آ کر
بخشا ہے جو اُس نے دلِ خوش فہم کو راغبؔ
رکھّا ہے ہر اِک زخم کو سینے سے لگا کر
شاعر: افتخار راغبؔ
کتاب: خیال چہرہ